حضرت محبوب الٰہی قطب الاولیاء شیخ المشائخ عالم ربانی مجددطریقت خواجہ محمد اعظم نقشبندی مجددی المعروف حضور والئی سالک آباد شریف رحمتہ اللہ علیہ

:پیدائش مبارک

آپ کی کنیت ابو طارق ہے ۔آپ کی ولادت مبارک 1920ء بمطابق ۱۳۳۸ھ میں باغدرہ شریف تحصیل و ضلع ہری پور ہزارہ میں ہوئی آپ کے والد گرامی غوث الامت باقی باللہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ محمد عبدالرحیم باغدروی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔

:آپ کا بچپن

آپ مادر زاد ولی اللہ تھے آپ کی ولادت باسعادت کے ساتھ ہی انوار و تجلیات کا ظہور ہونا شروع ہوگیا تھا آپ کی ولادت باسعادت پر حضور اعلیٰ سرکار باغدرہ شریف رحمتہ اللہ علیہ بے انتہا مسرور تھے خوشی اور مسرت کے اس عالم کو دیکھ کر ہر ایک آدمی یہ سمجھ گیا کہ خانقاہ رحیمیہ مجددیہ کو حقیقی زینت دینے والا جانشنین آگیا ہے ۔ مسنون طریقہ پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کا عقیقہ کیا گیا آپ کی زبان مبارک سے سب سے پہلا لفظ اللہ جاری ہوا آپ رحمتہ اللہ علیہ کا بچپن عام بچوں سے مختلف تھا آپ بچپن ہی سے ہمہ وقت ذکر الہٰی میں مگن رہتے ۔ بچپن ہی سے حضور اعلیٰ سرکار باغدرہ شریف رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کی خصوصی تربیت پر خاص الخاص توجہ عطا فرمائی آپ رحمتہ اللہ علیہ عام بچوں کی طرح کھیل کود ہنسی مذاق ا ور دیگر فضول باتوں سے اجتناب فرماتے۔ آپ ہمیشہ سچ بولتے اور جھوٹ سے نفرت کرتے تھے۔

:حضور اعلیٰ سرکار والئی سالک آبادرحمتہ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت وبیعت

آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم باغدرہ شریف میں اپنے والد گرامی سے حاصل کی اس کے بعد کچھ عرصہ قرب و جوار کے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ علوم دینیہ و علوم ظاہرہ کی تکمیل ہندوستان کے مختلف معروف مدارس سے کی ، علوم ظاہرہ کی تکمیل کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ علوم باطنی کی طرف متوجہ ہوئے آپ کے قلب میں معرفت الہی کا شوق و ذوق پیدا ہوا اور آپ کی طبیعت کا میلان نسبت رسولی کی جانب متوجہ ہوا تو اس شوق کے پودے کی آبیاری کے لیے اور اس ذوق کو پایۂ تکمیل پر پہنچانے کے لیے مرد کامل کی تلاش و جستجو ہوئی اس معاملے میں آنحضور کی نظر انتخاب وقت کے ولی کامل نسبت رسولی کے امین دربار رسولی کے محبوب نسبت صدیقیہ کے دلنشین نسبت شاہ نقشبند کے ہم نشین اور نسبت مجددیہ کے جانشین غوث الامت باقی باللہ پیر طریقت رہبر شریعت منبع رشد و ہدایت سلطان الاولیاء مخدوم المشائخ  خواجہ خواجگان حضرت خواجہ قاضی محمد عبدالرحیم باغدروی رحمتہ اللہ علیہ (جوکہ آنحضور کے والد گرامی بھی تھے) پر ٹھری ، آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی بیعت کاذکر مبارک ان الفاظ میں خود فرماتے ہیں کہ پندرہ شعبان المعظم کی رات میرے مرشد کریم حضور اعلیٰ سرکار باغدرہ شریف رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے طلب فرمایا اور وضو کرنے کا حکم صادر فرمایا اور پھر اپنی شفقت و عنایات میں دورکعات نفل کی ادائیگی کا حکم صادر فرمایا نوافل کی ادائیگی کے بعد مجھے بیعت فرمایا اور دوران بیعت ہی یہ محسوس ہوا کہ مرشد کریم غوث الامت باقی باللہ سرکار باغدرہ رحمتہ اللہ علیہنے مجھے دربار رسولی میں پیش کردیا ہے ۔ بیعت کے بعد حضور اعلیٰ نے کچھ ارشادات عالیہ فرمائے حضور اعلیٰ نے فرمایا کہ آپِ کو مبارک ہو ولادت دو طرح کی ہوتی ہے ایک ولادت اولیٰ جس کا تعلق نسب و جسم سے ہے جس سے باپ بیٹے کا تعلق جڑتا ہے دوسری ولادت ثانیہ جس کا تعلق روح سے ہے جس سے پیر اور مرید کا رشتہ قائم ہوتا ہے لہذا آپ کو مبارک ہو کہ الحمد للہ آپ کو دونوں ولادتیں نسبی اور روحانی اس فقیر سے حاصل ہوئیں مزیدارشاد فرمایا کہ جس طرح ولادت اولیٰ کے وقت اللہ تعالیٰ بندہ میں تمام جسمانی اوصاف و خصائص رکھ دیتا ہے لیکن وہ کام اپنے اپنے وقت پر کرتے ہیں مثلاً بچے کے ہاتھ ہوتے ہیں لیکن وہ ایک عمر پر پہنچنے کے بعد ان ہاتھوں سے کام لے سکتا ہے اسی طرح پاؤں ، زباں ، دماغ اور دوسرے جسمانی اعضاء کی مثال ہے بعینہ اسی طرح ولادت ثانیہ کے وقت مرشد اپنے مرید میں وہ تمام روحانی کمالات نسبتیں اور سلسلہ کی تمام امانتیں رکھ دیتا ہے جو کہ وقت کی مناسبت کے ساتھ ظہور پذیر ہوتی ہیں ۔

:شیخ کا ادب و احترام

آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجدحضورسرکار والئی باغدرہ شریف رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کی بے مثل تربیت فرمائی جس کی بدولت آپ بیک وقت ظاہری اور باطنی علوم پر عبور رکھتے تھے اور اخلاقیات و تقویٰ میں آپ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے جس کا اندازہ اس بات سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کبھی آپ نے اپنے والد کو والد کہے کر نہیں پکارابلکہ ہمیشہ ہمارے حضور،قبلہ عالم، ہمارے داتا کہ القابات سے ذکر فرماتے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ نے سرکار والئی باغدرہ شریف رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت طریقت فرمائی تھی اس لیے ہمیشہ نسبی رشتے پر روحانی تعلق کو فوقیت دی اور اپنے شیخ کا ایسا ادب کیاکہ جس کودیکھ کر سالکین حیرت میں ڈوب جاتے تھے۔

:تبلیغِ دین

آپ 40 سال کے طویل عرصے تک سرکاروالئی باغدرہ رحمتہ اللہ علیہ کی مسند پر جانشینی کے فرائض انجام دیتے رہے اس دوران ہزاروں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی ہزاروں کی روحانی تشنگی آپ کے در سے سیراب ہوئی اوربے شمارلوگ طریقت کے اعلیٰ مقامات طے کر کے قرب الہی کے بلند مقامات پر فائض ہوئے آپکی تبلیغی خدمات پاکستان سمیت مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی تھیں،آپ قدس سرہ نے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف شہروں بستیوں کے تبلیغی دورے فرما کر رشد ہدایت کا فریضہ سر انجام دیا۔ حضور والئی سالک آباد شریف رحمتہ اللہ علیہ تبلیغی سفر میں جس جگہ سے گذرتے تو راستے کے انجان لوگ بھی متاثر ہوکر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ہولیتے نیزاس دوران علماء و صوفیاء کی بڑی تعداد حضور والئی سالک آباد شریف رحمتہ اللہ علیہ سے مستفیض ہونے حاضر ہوتی ۔
آپ کی مجلس اتنی عارفانہ ہوا کرتی تھی کہ سالکین بیداری کے عالم میں دربار رسولی سے مشرف ہوجاتے آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہماری نسبت،نسبت رسولی ہے،ر آپ کو یہ بات بھی ناپسند تھی کے میرے مرید سنت غیر موکدہ تک کو ترک کریں،آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مشہور ارشاد ہے فقیر کے پاس دو چیز ہوں تو وہ کامیاب ہے ایک تلوار اور دوسری ڈھال ۔ طریقت فقیر کی تلوار ہے اور شریعت فقیر کیلئے ڈھال ہے ۔
آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا ابتداء ہی میں وہ مقامات سلوک پالیتا جو دیگر سلاسل میں انتہائی مجاہدات کے بعد نصیب ہوتے ہیں اور آپ صرف ایک توجہ باطنی سے لطائف ستہ جاری فرمادیا کرتے تھے وقت کے بڑے بڑے علماء اور مشائخ آپکے سامنے دوزانوں بیٹھنا اپنی سعادت سمجھتے۔
وصال حضرت اقدس سرکاروالئی سالک آباد شریف نوراللہ مرقدہ
حضور قبلہ عالم سلطان الفقراء خواجہ ثانی سرکاردامت برکاتہم القدسیہ رشاد فرماتے ہیں کہ حضور اعلیٰ سرکار باغدرہ شریف رحمتہ اللہ علیہ کے چالیسویں سالانہ عرس کے موقع پر حضور قبلہ عالم سرکار والئی سالک آباد شریف رحمت اللہ علیہ مختلف مجالس میں یہ ارشادفرماتے رہے کہ میرے حضور کا چالیسواں عرس ہے اور ایسے لگتا ہے کہ چلہ پورا ہوگیا ۔ اور پھر ساتھ یہ بھی فرمادیتے کہ چالیس سال کے بعدحکومت بدلتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔
حضور قبلہ عالم حضور مرشد ثانی سرکار دامت برکاتہم ارشاد فرماتے ہیں یکم ربیع الثانی 1407ہجری بروز جمعرات وصال سے ایک دن پہلے رات کو حضور قبلہ عالم نے فرمایا کہ آج کیا دن ہے ہم نے عرض کی حضور آج یکم ربیع الثانی ہے ۔ تو آپ خاموش ہوگئے ۔ جب صبح ہوئی تو وصال سے کچھ پہلے ارشاد فرمایا کہ اے میرے اللہ میرے حضور سرکار باغدرہ شریف کے وسیلے حضور پاک صاحب لولاک ﷺ کی ساری امت پر رحم فرما ۔
اس کے بعد حضور قبلہ عالم نے سانس ذرا لمبا لمبا لینا شروع فرمادیا ۔ تو بندہ فقیر نے حضور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر عرض کی کہ حضور کوئی تکلیف ہے تو آپ نے دو تین بار بڑی تسلی کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ کوئی تکلیف نہیں ۔ کوئی تکلیف نہیں ۔ کوئی تکلیف نہیں آپ کے اس ارشاد نے عظیم صدمہ سہنے کی استعداد عطا فرمادی ۔ تو پھر اس کے بعد تھوڑی دیر گزری تو ارشاد فرمایا کہ آج کیا دن ہے تو ہم نے عرض کی آج جمعتہ المبارک ہے۔ 2ربیع الثانی اور دسمبرکی5ہے تو آپ نے فرمایا اچھا اچھا اچھا جونہی یہ الفاظ زبان مبارک سے جاری ہوئے تو بندہ فقیر کے دل و دماغ میں یہ بات کھٹک گئی کہ یہ وہی الفاظ ہیں جو حضور اعلیٰ بابا جی والئی باغدرہ شریف رحمتہ اللہ علیہ نے بھی آخری وقت ارشاد فرمائے تھے بندہ فقیر اسی سوچ میں تھا کہ ناگہاہ سرکار نے بڑی جلدی سے سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا(اورپراسرارکیفیت میں اسم ذات) اللہ کہتے ہوئے ایک لمبا سانس لیا ۔ چہرہ مبارک کی چمک نے یہ پیغام دے دیا کہ حضور قبلہ عالم اس جہان فانی سے پردہ فرما رہے ہیں ۔ چونکہ حضور قبلہ عالم پر یہ کیفیت بیٹھے ہوئے طاری ہوئی تھی اس موقع پر بندہ فقیر نے آپ کو تھامنے کی کوشش کی مگر ایسا محسوس ہوا کہ آپ کو ہمارے تھامنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ کے وجود مسعود کو سیدھا کر کے لٹایا گیا تو پہلی کرامت یہ دیکھی کہ آپ کی طرف سے یاددھانی کرائی گئی کہ حضرت یار غار رضی اللہ عنہ کی سنت کو پورا کروں تو بندہ فقیر نے فوراً تعظیما پیشانی مبارک پر بوسہ دیا اور زبان سے یہ جاری ہوا ۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن