غوث الامت باقی باللہ شیخ المشائخ،سید الواصلین خواجہ قاضی عبدالرحیم نقشبندی مجددی المعروف سرکار والئی باغدرہ شریف رحمتہ اللہ علیہ

:پیدائش مبارک

آپ رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش مبارک سن 1876ء بمطابق 1296ھ میں حضرت علامہ قادربخش المعروف حضرت اجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے گھر واقع مسیاڑی میں ہوئی ،حضرت اجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت جید عالم دین اور ولی کامل کی حیثیت سے متعارف تھی اس گھرانے کا شمار علمی وجاہت اور خاندان مغلیہ سے تعلق کے سبب اعلیٰ خاندان میں ہوتا تھا۔

:ہجرت 

حضرت علامہ قادر بخش رحمتہ اللہ علیہ کے والد گرامی نے مسیاڑی سے جلا لیہ حضرو میں ہجرت فرمائی بعد ازاں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے تبلیغِ دین، خدمتِ حدیث اور درس و تدریس کی غرض سے جلا لیہ حضروسے ہجرت فرما کر گنگر کے پہاڑوں میں واقع وادیِ باغدرہ شریف کو شرف عطا فرماکر آباد فر مایا اور درس و تدریس کے ساتھ ساتھ رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری فرمایا اسی علم و حکمت رشد و ہدایت کے عظیم ماحول میں حضور غوث الامت خواجہ عبدالرحیم باغدروی نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ نے پرورش پائی ۔

:تعلیم و تربیت 

آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے شفیق و مہر بان والد گرامی حضرت خواجہ قادر بخش المعروف حضرت اجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کی بعد ازاں اس زمانے کے معروف علمی مراکز بھوئی گاڑ تحصیل حسن ابدال جلالیہ تحصیل حضرو ضلع اٹک کے مختلف مدارس میں متو سط کتب کی تعلیم حاصل فرماتے رہے ۔دریں اثنا اعلیٰ کتب کی تعلیم ہندوستان کے مختلف معروف مدارس میں جید علماء کرام و محدثین عظام کی زیر تربیت حاصل کی اور درس نظامی کے بعد دورہِ حدیث شریف کی تکمیل فرمائی ۔

:تلاش رہبرِ طریقت

زمانہ طالب علمی ہی سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو ذکر الٰہی سے بڑا شغف تھا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے قلب میں معرفت الٰہی کا ذوق و شوق بے انتہا تھا آپ رحمتہ اللہ علیہ درسی اسباق کے بعد اپنا تمام وقت دیگر مصروفیات میں ضائع کرنے کے بجائے ہمہ وقت ذکر الٰہی میں گزارتے آہستہ آہستہ یہ ذوق و شوق شدت اختیار کر تا چلاگیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ معرفت الٰہی کے لیے بے قرار ہوتے چلے گئے معرفت الٰہی کی پیا س بڑھتی چلی گئی بالآخر تحصیل علم کی تکمیل کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ معرفت الٰہی کی پیاس کی سیر ابی اور قلب و روح کی تسکین کے لئے سر ہند شریف حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی خواجہ خواجگان حضرت خواجہ شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر تشریف لے گئے اور وہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے چھ ماہ کا سخت مجاہدہ و چلہ کشی فرمائی چلہ کشی کے صلے میںآپ رحمتہ اللہ علیہ کو حضور امام ربانی مجد دالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی خصوصی توجہ و عنایات و شفقت خاص عطا ہو ئی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت خواجہ خواجگان حضرت خواجہ شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمتہ اللہ علیہ سے اویسی نسبت قائم ہو گئی اور یہ نسبت بعینہ اسی طرح ہے جس طرح حضرت خواجہ خواجگان حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت سلطان العارفین شیخ بایذیدبسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے تھی اور امامِ طریقت خواجہ خواجگان حضرت شاہ بہاؤ الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کو باطنی طور پر حضرت خواجہ خواجگان خواجہ عبدالخالق غجد وانی رحمتہ اللہ علیہ سے نسبت اویسی حاصل تھی جبکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بیعت حضرت خواجہ امیر کلال رحمتہ اللہ علیہ سے تھی ۔

:بیعت 

اپنی بیعت کے متعلق آپ رحمتہ اللہ علیہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے جب سر ہند شریف میں چھ ماہ کی چلہ کشی مکمل کی تو میر ی رہنمائی کی گئی اور اسی راہ نمائی کے تحت میں موہڑہ شریف امام الاولیاء قدوۃ السالکین زبدۃ العارفین خواجہ خواجگان حضرت خواجہ محمد قاسم موہڑوی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور قبلہ عالم بابا جی صاحب موہڑوی رحمتہ اللہ علیہ نے کھڑے ہو کر استقبال کیا سینے سے لگایا اور احوال حاصلہ کی تصیح فرماتے ہوئے فرمایا ’’آپ نے جو کچھ پانا تھا پا لیا آپ میرے مرید نہیں بلکہ میری مراد ہو یہ ارشاد فرما کر حضور شیخ المشائخ خواجہ قاسم موہڑوی نقشبندی مجددی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کوبیعت فرمایا اور اسی وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ و دیگر جمیع سلاسل کی امانتیں سپر دفرماکر خلافت و اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ آپ کے آنے سے میرا سر بلند ہو گیا۔

:اولیاء اللہ کی نظر میں مقام

(۱) آپ رحمتہ اللہ علیہ حقیقی معنوں میں فقر محمدی کے عکس کامل تھے شریعت کے پابند تھے خلاف شرع بات کو سخت ناپسند فرماتے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مشائخ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ولایت اور مقام و مرتبہ کے معترف تھے ایک مرتبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے پیر و مرشدخواجہ خواجگان حضرت خواجہ محمد قاسم موہڑوی رحمتہ اللہ علیہ کی معیت میں حضرت خواجہ خواجگان خواجہ نظام الدین والئی کیاں شریف قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھ کر فرمایا کہ قاضی صاحب مرید توخواجہ قاسم کے ہیں لیکن ان کی پرواز اور مقام بہت بلند ہے اور یہ اولیاء کے بادشاہ ہیں ۔

(۲) حضرت خواجہ خواجگان پیرسید مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحیح معنوں میں شریعت پر باغدرہ والے عمل کر بھی گئے اور کروابھی گئے ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے فقر کا عالم یہ تھا کہ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی فرماتے کہ اگر کسی کو صحیح فقیر دیکھنا ہو تو وہ باغدرہ والوں کو دیکھے ۔

:آپ رحمتہ اللہ علیہ سے وابستہ نسبت کا کمال

آپ رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص بھی بالو اسطہ یا بلا واسطہ میرا مرید ہوا اور اسے میری نسبت حقیقی نصیب ہوئی تو اسے تین چیزیں حاصل ہوں گی (۱) یہ کہ وہ کسی اور شخصیت سے متاثر نہیں ہو گا اور وہ جہاں جائے گا لوگ اس سے متاثر ہوں گے ۔(۲) یہ کہ مرنے سے قبل اس کا قلب ضرور جاری ہو گا ۔(۳) یہ کہ میرے بعد ازوصال بھی اسے اسی طرح فیض ملتا رہے گا جیسے ظاہری حیات میں ملتا ہے ۔

باغدرہ شریف سے ہجرت سالک آباد شریف آمداور وصال شریف و مزار مبارک
آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ فیض خانقاہ عالیہ باغدرہ شریف میں جاری و ساری تھا باغدرہ شریف چوں کہ ایک دشوار گزار پہاڑی علاقہ میں واقع ہے طالبان حق کو وہاں جانے کے لیے انتہائی سخت راستوں کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس وجہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے شیخ قطب الاولیاء خواجہ قاسم موہڑوی رحمتہ اللہ علیہ نے ہجرت کا حکم فرمایا اور آپ نے باغدرہ شریف سے 1935ء میں ہجرت فرمائی اور حسن ابدال کے نزدیک پیر مندر یالہ سے متصل وادی میں سکونت اختیار کی نیز آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس وادی کا نام سالک آباد شریف تجویذفرمایا، آپ رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں ایک مسجد تعمیر کرائی جسے آج بھی خضری مسجد کے نام سے یا د کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ایک خانقاہ قائم فرمائی ۔

:دربار رسولی ﷺمیںآپ کا مقام 

آپ قدس سرہ کا رحمت کائنات محمد مصطفی ﷺکی بارگاہ میں انتہائی قربت حاصل تھی آپ رحمتہ اللہ علیہ خاص سالکین کو بیداری میں رسول اللہ کے حضور پیش فرمادیا کرتے تھے ،آپ کی قربت خاص کا اندازہ اس بات سے باخوبی حاصل ہوتا ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو بارگاہِ رسالت ﷺ سے قاضی کا خطاب عطا ہوا،آپ رحمتہ اللہ علیہ جب حرمین شریفین کی حاضری کے لئے تشریف لے گئے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین دعائیں مانگیں اللہ تعالیٰ نے وہ تینوں دعائیں قبول فرمائیں اور چوتھا انعام اپنی جانب سے فرمایا وہ تین دعائیں یہ تھیں (۱) کہ مجھے خانہ کعبہ کا مکمل طواف تنہائی میں نصیب ہو کہ نبی آدم میں سے کوئی موجود نہ ہو۔ (۲) یہ کہ میں مدینہ طیبہ میں ناقص الوضو نہ ہوں ۔ (۳) یہ کہ مجھے حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام پیش کرنے کا موقع تنہائی میں نصیب ہو حضورسرکار باغدرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں مکہ پاک میں پہنچا یہ بات آج سے تقریباََ نوے سال قبل کی ہے کہ اس وقت بھی یہ سعادت حاصل کرنا انتہائی مشکل تھا حضورسرکار باغدرہ رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا رات کے پچھلے پہر میں مجھے کعبہ شریف کا ایک چکر ملا پھر ایک مرتبہ دو چکر ملے کچھ روز کے بعد ایک رات ،رات کے پچھلے حصے میں مجھے مکمل سات چکر طواف کے ملے اور نبی آدم میں سے کوئی بھی موجود نہ تھا اور اس واقعے سے آپ کی شب بیداری کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سعادت صرف وہی حاصل کر سکتا ہے جو مکمل شب بیدار ہو اور عنایات الٰہی بھی مکمل شامل حال ہو دوسرا یہ کہ میں اٹھارہ روز مدینہ طیبہ میں رہا اور میرا وضو ناقص نہ ہو ا اٹھارہ یوم تک میں ایک ہی وضو سے رہا تیسرا یہ کہ میں ایک مرتبہ ریاض الجنتہ میں موجود تھا تو مسجد نبوی کے دروازے بند ہو گئے اور میں اندر ہی رہا اور میں نے تنہائی میں مواجہ شریف میں حاضری دی اور معروضات پیش کیں تہجد کے وقت جب خادمین آئے تو بڑے حیران ہوئے اور مجھ سے پوچھا یا شیخ آپ یہاں کیسے پہنچے تو میں نے کہا کہ میں ریاض الجنتہ میں تھا اور ابھی مواجہ شریف پر حاضر ہوا ہوں تو انہوں نے حیرت سے کہا کہ ریاض الجنتہ میں ہم کسی کوکہاں چھوڑتے ہیں آپ ہمیں نظر نہیں آئے یہ موقع آپ کو سرکار ﷺنے عطافرمایا ہے یہ کہہ کر میرے ہاتھ کو بوسہ دینے کے لئے جھکے لیکن میں نے اپنے ہاتھوں کو پیچھے کھینچ لیا کہ سرکارﷺ موجود ہیں اور دوسرایہ کہ یہ سرکا رﷺ کے خادم ہیں حضورسرکار باغدرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میری تینوں دعائیں قبول ہوئیں ایک اضافی انعام سرکارﷺ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ایک مجذوب مسجد نبوی میں آیا اور روضہ مبارک کی طرف منہ کر کے دعا کرنے لگا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ اپنا دیدار کرائیں معاََ اسی اثنا میں قبر شریف میں ایک لکیر سی پیدا ہوئی اور ایک خوشبو آئی جس سے تما م حاضرین پر غشی طاری ہو گئی صرف وہ مجذوب اور میں ہو ش میں رہے تو سرکار دو عالم ﷺ قبر انور سے باہر تشریف فرما ہوئے تو میں نے اور اس مجذوب نے دیدار کیا اور زیارت سے مشرف یاب ہوئے پھر قبرانور دوبارہ بند ہوئی اور وہ مجذوب الٹے پاؤں واپس جارہا تھا اور کہہ رہا تھا یارسول اللہ ﷺ آپ بڑے سخی ہیں اس کے بعد لوگ ہوش میں آئے اور آپس میں کہنے لگے کہ کیا ماجرا ہوا لیکن کسی کو بھی معلوم نہ ہو سکا کہ کتنا بڑا کرم ہو ا۔

:تبلیغی خدمات 

آپ رحمتہ اللہ علیہ تقریباََ پچاس سال تک سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجدد یہ کی تعلیمات کو عام فرماتے رہے اور ہزاروں کی تعداد میں طالبان حق کو نسبت رسولی سے سرفراز فرماتے ہوئے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے ،آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں بڑی تعدادمیں جید علماء ،مفتیانِ شرع اورشیخ الحدیث شامل تھے ،آپ رحمتہ اللہ علیہ کے معتقدین ومریدین پاک و ہند میں بڑی تعداد میں موجود تھے نیزآپ رحمتہ اللہ علیہ کے تربیت یافتہ مریدین میں بڑی تعداد اہل للہ کی تھی۔

:اپنی حیاتِ مبارک میں ہی اپنے وصال کی خبر 

حضور قبلہ عالم مرشد کریم حضرت مرشد ثانی سرکار مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ کالوپنڈ کے امام مسجد حاجی مولا نا غلام حیدر استاد صاحب مرحوم بیان کیا کرتے تھے کہ حضور اعلیٰ غوث الامت باقی باللہ خواجہ عبدالرحیم باغدروی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک دن مجھے بلوایا اور ارشاد فرمایا کہ چند دنوں کے بعد اللہ کی بارگاہ سے میر ا بلاوا آنے والا ہے اور میرے مہمانوں کے لیے میری طرف سے لنگر کا بندوبست کرنا ہے لہذا فلاں دن سے پہلے پہلے لکڑیوں کا بندوبست ہو جانا چاہیے میں چونکہ اس وقت لکڑیوں کا کاروبار کرتا تھا میرے علم میںیہ بات تھی کہ گو نگا پینڈ کے فلاں خان صاحب کا کافی سارا جنگل ہے میں نے اس کے ساتھ رابطہ کیا اور ان کو صورتِ حال بتائی اس طرح میں اس خان صاحب کو لے کر دربار شریف آیا اور حضور اعلیٰ غوث الامت باقی باللہ خواجہ عبدالرحیم باغدروی رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کروائی صرف اس غرض سے کہ میرے ساتھ اس خدمت کے لیے یہ بھی تیار اور بیدار ہو جائے لیکن جب اس نے حضور اعلیٰ غوث الامت باقی باللہ خواجہ عبدالرحیم باغدروی رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کی تو مجھے باہر جاکر کہنے لگا کہ بابا جی صاحب رحمتہ اللہ علیہ بالکل ٹھیک ٹھاک بیٹھے ہیں تم ویسے ہی لکڑیاں اکھٹی کرنے کے لیے بہانے بنا رہے ہو خیر میں نے کہا کہ اگر آپ لکڑیاں نہیں دیتے تو آپ کی مرضی۔ میں اکیلا ہی اللہ کی توفیق کے ساتھ بندوبست کرلوں گا لیکن جب میرے ارادے کو پختہ دیکھا تو وہ بھی ساتھ شامل ہو گیا اور سب سے بڑی جو بات سامنے آئی کہ جو دن آپ نے فرمایا تھا کہ فلاں دن تک لکڑیاں پہنچ جانی چاہیے یعنی اتوار پیر تک اور اسی اتوار کے دن پیر کی رات کو حضور اعلیٰ غوث الامت باقی باللہ خواجہ عبدالرحیم باغدروی رحمتہ اللہ علیہ کا وصال ہو ا۔

:وصالِ پرملال قطب الاولیاء حضور اعلیٰ سرکار باغدرہ شریف رحمتہ اللہ علیہ 

حضور قبلہ عالم مرشد کریم حضرت مرشد ثانی سرکار مد ظلہ العالی فرماتے ہیں کہ میرے حضور قبلہ عالم سرکار سالک آباد شریف رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے پیر و مرشد اعلیٰ حضرت سرکار باغدرہ شریف رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری عر س کی تقریب میں دعا سے پہلے ارشاد فرمایا جس سے خواصِ سلسلہ کو تقریباََ اندازہ ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو جس کام کے لیے بھیجا تھا وہ تمام ہو گیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ارشادات بتارہے ہیں کہ یہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ظاہری حیات کا آخری عرس ہے اور یہ بات بھی مسلمہ اورخاص و عام میں شہر ت کی حد تک مشہور ہے کہ ایک ہفتہ پہلے سے ہی آپ رحمتہ اللہ علیہ یہ ارشادات فرمانا شروع ہو گئے تھے کہ اتوار کا دن گزر کر سوموار کی رات ہوگی آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کے ایام میں جو جگہ آپ نے منتخب فرمائی اسی جگہ قبر کی کھودائی شروع ہو گئی قبر کھودنے کی آواز جب آپ رحمتہ اللہ علیہ کے کانوں میں پڑی کیونکہ کھودائی کرنے والے ساتھ ساتھ اسم ذات بھی پڑھ رہے تھے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے خاندان کی بزرگ مائی صاحبہ رحمتہ اللہ علیہا نے عرض کی کہ حضور کیا بات ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ کیوں رنجیدہ ہوتے ہیں آپ نے بر جستہ جلال میں فرمایا کہ مائی میں موت سے نہیں ڈررہا مجھے صرف ایک بات یا د آگئی کہ میں نے اپنے والد بزرگوار حضرت اجی صاحب باباخواجہ قادر بخش صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاؤں کی طرف اپنی قبر کے لیے جگہ منتخب کی تھی لیکن میرے اللہ کو یہ جگہ منظور ہے ۔حضور قبلہ عالم سر کار سالک آباد شریف رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے حضور نے اس دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل اپنی رحلت کے بعد کے لیے لنگر پورا بندوبست چاول ، دیسی گھی اور یہاں تک کہ روشنی کے لیے لالٹین دئیے اور مٹی کا تیل تک آنے والے مہمانوں کی خدمت کے لیے سلیقے اور طریقے سے سجادئیے تھے اور ساتھ ساتھ حضور اعلیٰ غوث الامت باقی باللہ خواجہ عبدالرحیم باغدروی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے جاتے میری رحلت کی وجہ سے تم کو ہوش نہیں رہے گا لہذا پہلے سے سارے انتظامات کرلیں ۔حضور اعلیٰ سرکار سالک آباد شریف رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حضور رحمتہ اللہ علیہ نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ جو نہی میری روح پرواز کرے تو مسجد میں میری چادر رکھ دی جائے تاکہ میرے کسی دل بندکو کسی قسم کا عارضہ پیش نہ آئے اتوار کا دن گزرا اور رات سوموار کے پونے دو بجے حضور نے دعا فرمائی اور گھر کے سارے افراد کو حکم فرمایا کہ آپ چلے جائیں جو نہی اہل بیت اپنی اپنی رہائش کے کمروں میں پہنچے تو اطلاع آئی کہ حضور اعلیٰ غوث الامت باقی باللہ خواجہ عبدالرحیم باغدروی رحمتہ اللہ علیہ رحلت فرماگئے۔ رحلت سے پہلے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا کہ آج کیا دن ہے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو تاریخ دن اور وقت بتایا گیا اور آپ نے فرمایا اچھا،اچھا ،اچھا موجود اہل بیت نے نبض پر ہاتھ رکھا تو آپ نے فرمایا کہ اب نبض کے رکنے کا وقت قریب ہے تھوڑی دیر بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ نے آسمان کی طرف دیکھا اور ایک پر اسرار کیفیت میں اسم ذات اللہ کہتے ہوئے لمبا سانس لیا اور روح پر واز کر گئی ۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن

یوم وصال 8جماد ی الاول 1366ہجری بمطابق 31مارچ 1947 بروز سوموار بوقت سحری۔
مادہ تاریخِ وصال : ماہِ فضیلت ۱۳۶۶ھ ہے